ALL PAKISTAN PRIVATE SECURITY AGENCIES' EMPLOYEES ASSOCIATION

Tuesday, February 28, 2012

Private Secuirty Guards - سیکورٹی گارڈز

سیکورٹی گارڈزکے تقرر کا عمل...اکرام سہگل



بہت سے المناک واقعات میں سے ایک واقعہ پنجاب کے سابق گونر سلمان تاثیر کے قتل کا بھی ہے،جن کو مورخہ ۴ جنوری ۲۰۱۱ کو ان کی سیکورٹی پر مامور ایک گار ڈ ممتاز قادری نے اس لئے ہلاک کردیا کہ وہ سلمان تاثیر کے توہین رسالت کے قوانین کے بارے میں رائے سے متفق نہ تھا، سلمان تاثیر کو ہلاک کرنے کے بعد اپنا جرم بھی اس شخص نے فورا ً ہی قبول کرلیا ، اسکی تعیناتی ایلیٹ پولیس نے کی تھی۔ نظریات کی اسطرح کی تشریح انتہا ئی اور تشویش ناک ہے۔سوال یہ ہے کہ اگرممتاز قادری کے رجحانات اور ارادے کچھ اسطرح کے تھے تو کسی افسر یا ساتھی نے نشاندہی کی تھی یا کیوں نہیں کی تھی؟ ابھی یہ واضح نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس نے کس طرح سابق گور نر کے سیکورٹی گارڈ، اسلام آباد میں اپنی تعیناتی کوممکن بنایا؟ ،اس سلسلے میں اس کے افسران کے کردار کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ملتی۔تربیت یافتہ سکیورٹی کاعملہ کسی بھی خطرے کو محسوس کرتے ہی فوری ردعمل کرنے کا رجحان رکھتا ہے۔پھر کیا وجہ تھی کہ ممتاز قادری سلمان تاثیر پر برسٹ پر برسٹ برساتا رہا اور کوئی اس کو روک بھی نہ سکا، کیا اس وقت ا سکے ساتھی بھی دل سے اس کے ساتھ تھے جو یہ عمل ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔سیکورٹی گارڈ کے اس واقعہ نے تما م ہی اہم شخصیات کو اپنے سیکورٹی پر مامور اہلکار وں پر سوالیہ نشان کا ایک عنصرکو ذہین میں ڈال دیا ہے۔نظریاتی اختلافات اور سیکورٹی پر مامور اہلکاروں کے پس منظر کے بارے میں متعدد مرتبہ چھان بین کی جاتی ہے لیکن پھر بھی تعیناتی افسران اس عنصر کو نہ پکڑ سکے، جو یقینا حیران کن بات بھی ہے۔لگتا ایسا ہے کہ اس چھان بین میں کوئی خطرناک کڑی بھی جڑی ہوئی ہے جو پکڑی نہ جاسکی۔ صرف ایک یا دو افسران ہی کسی بھی سیکورٹی گارڈ کی تعنیاتی کے لئے کافی ہیں ، اور پھر یہ گارڈ زچاہیں جتنابھی خون خرابہ کریں کوئی موقع پر پکڑ نہیں سکتا ۔اس عمل سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سیکورٹی کی کسوٹی اور چھان بین کا عمل کتنا اچھا ہے یا کتنا قابل اعتماد ہے؟آل پاکستان سیکورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن ( APSAA)نے اس بات پر ضرور دیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے اہلکاروں کی اچھی طرح چھان بین کریں ، بلکہ اس عمل کا ایک باقاعدہ ادارتی نظام بھی وضع کریں۔جب ہم سلمان تاثیر کی سرکاری سیکورٹی کے بارے میں سوچتے ہیں تو ان پرائیوٹ سیکورٹی ایجنسوں کے بارے میں تو سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ان کی اعتباریت کیاہوگی؟۔
اس وقت سینکڑوں پرائیوٹ سیکورٹی ایجنسیاں ملک میں کام کررہی ہیں، تقرر کے وقت ان گارڈ زکی اچھی طر ح چھان بین بہت ضروری ہوتی ہے چونکہ ان کے سپرد لوگوں کی زندگیاں اور املاک سپرد کی جاتی ہیں۔پاکستان میں یہ پہلو بہت ہی اہم اور نازک ہے۔APSAA کے ممبران ایک ہاری ہوئی جنگ اس تصور کے خلاف لڑ رہے ہیں جو لوگوں کے ذہینوں میں ابھر گیا ہے کہ یہ سیکورٹی گارڈز ان کی حفا ظت کرنے کے بجائے ان ہی کو لوٹ لیتے ہیں اور بعض اوقات بہت ہی المناک واقعات بھی رونما ہو جا تے ہیں، بد قسمتی سے اس کومیڈیا نے بھی کچھ زیادہ ہی ہوا دی ہے۔آج سیکورٹی گارڈز کی ایمانداری اور وفاداری بہت اہم مسئلہ ہے،خاص کر ایسے وقت میں کہ ہم دہشتگری کے چنگل میں بھی پھنسے ہوئے ہیں۔دنیا بھر میں سیکورٹی گارڈز کو تصدیق کے ایک خصوصی عمل سے گز رنا پڑتا ہے۔، بہت سے ممالک میں کسی سیکورٹی کو بھرتی کرنے سے پہلے مقامی پولیس سے اس کے ماضی کے ریکارڈ کی گہری چھان بین بھی کرائی جاتی ہے، اور بعض جگہ پر اس کے کام کی تصدیق کے لئے کسی دوسری ایجنسی کی خدمات لازمی حاصل کی جاتی ہیں۔مثال کے طور پر نیدر لینڈ میں جس جگہ کوئی سیکورٹی ایجنسی کام کرتی ہے اس علاقے کی پولیس کے ذ ریعے اس بھرتی ہونے والے کے کوائف کی جرائم ریکارڈ سے بھی چھان بین کی جاتی ہے۔پاکستان میں کئی ایسے قوانین موجود ہیں لیکن اس قسم کی پس منظر کی چھان بین کے لئے خرچہ ہوتا ہے، یہ تصدیق برقیاتی اور طبعی دونوں طرح سے کی جاسکتی ہے جو کہ ایک درست طریق کار ہے۔پارلیمنٹرین کی جعلی ڈگری کی چھان بین کا معاملہ ہی لے لیجئے کہ یہ کام کتنا وقت طلب ہے لیکن درست اطلاعات تو سامنے آتی ہیں۔سب سے مشترک عنصر یہ ہے کہ وہ گارڈ جن کو بینکوں یا حسّاس جگہوں پر تعینات کیا گیا ، ان میں کچھ تو ڈکیتی کرنے میں کامیاب ہوئے اور کچھ نہیں ہوئے، ایسا جرم کرنے و الوں میں وہ گارڈ زشامل تھے جنہوں نے اپنے ایمپلائر کو غلط یا جعلی ذاتی کوائف اور دستاویزات جمع کرائے تھے، موبائل فون نمبر تک غلط دئیے گئے اور ان کو چیک بھی نہیں کیا گیا اور تو اور جعلی کمپوٹررائزڈ شناختی کارڈ ملازمت کے لئے جمع کرایا گیاتھا۔یہ یقینا تکلیف دہ بات ہے کہ باقاعدہ انکوائری عمل نہ ہونے کے باعث مجرموں نے کامیابی کے ساتھ اسکا خوب فائدہ اٹھایا۔ بعض صورتوں میں تو نادرا کا جاری کردہ شناختی کارڈ تو اصلی تھا لیکن اس میں فراہم کردہ کوائف تمام کے تمام ہی فرضی وجعلی نکلے۔نظام میں جب ا تنے بڑے بڑے شگاف ہوں تو کیا دہشت گردوں یا انتہاء پسند ارادے رکھنے والوں کے لئے اپنے جرائم کے منصوبہ کوعملی جامہ پہنانے کے لئے سیکورٹی گارڈ میں ملازمت حاصل کرنا کوئی مشکل کام ہے؟، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی مشکل نہیں!!!
لیکن پھر کیا کیا جائے؟ بلاشبہ قوانین موجود ہیں لیکن اس پر عمل درآمد بہت کاہلی کاشکار ۔اس طر ز عمل کو تبدیل ہونا چاہیے، لیکن بات دراصل یہ ہے کہ ہم جب جاگتے ہیں جب کوئی واقعہ ہوجاتا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی گارڈ کی اہم جگہ پر تعیناتی کرنے سے پہلے اچھی طرح چھان بین کرلی جائے۔ان کے کوائف کوجرائم ، اور دہشتگرد عناصر کی فہرست اور دیگر ریکارڈ سے بھی بہت باریک بینی سے جانچ کرنا ضروری ہے، ان کے فر اہم کردہ کاغذات کی تصدیق بھی اس چھان بین کے عمل میں شامل ہونا ضروری ہے۔سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ کلائنٹ دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک ادارہ اور دوسرا انفرادی۔ ایک انفرادی کلائنٹ کو کمپنی پر اعتماد کرتے ہوئے گارڈز کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں، جبکہ جبکہ وہ ادارے جو سیکورٹی ایجنسوں سے گار ڈ زکی خدمات حاصل کرتی ہیں، ان کے سیکورٹی منیجر چھان بین کا کام کرتے ہیں۔بدقسمتی سے MNCsبھی سیکورٹی گارڈ کے ماضی کے ریکارڈ پر بسااوقات توجہ نہیں دیتے، جبکہ انہیں اس عمل کو سنجیدگی سے کرنا چاہیے۔بہت سے سیکورٹی منیجرز محض زبانی کلام پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور اپنے باس کو یقین دلادیتے ہیں۔ایک اہم عنصر تربیت کے مرحلے کا بھی ہے ، ایک اچھاانسٹرکڑ اپنے تربیت حاصل کرنے والے گارڈ زکے ذ ہنی رجحانات اور کیفیت کو ہوشیار ی سے کچھ سوالات پوچھ کر ہی پرکھ لیتاہے ۔APSAA کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے تربیت اسکول کی سہولت رکھی ہے، لیکن ایک اجمالی نظر ڈالی جائے تو اسکے تمام اراکین اس سہولت کو استعمال نہیں کرتے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ منظم جرم اور دہشت گردی میں کوئی نہ کوئی تعلق، مجرمانہ تاریخ اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کے حوالے سے ہوتا ہے۔پرائیوت سیکورٹی ایجنسوں میں نئے گارڈز کے تقر ر میں مجرمانہ عنصر کی توسیعی پیمانے پر گہری جانچ ہونا ضروری ہے۔تمام گارڈ ز خواہ وہ مسلح ہوں یا نہ ہوں ان کو ایک جامع تربیتی پروگرام سے گزارناضروری قرار دیا جاناچاہیے۔خواہ یہ بات کسی کو پسند آئے یا نہیں لیکن ایسا عمل ضرور ی ہے۔ کیونکہ ایسے عناصر جن کی اپنی سوچ کسی خاص مجرمانہ ذہنیت یا انتہاپسندی کے مقاصد کے حصول کے دائرہ میں ہو، بڑی آسانی کے ساتھ ہماری سوسائٹی ، ہماری قانون پر عمل درآمد کرنے والی ایجنسیوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ و فاقی و زارت داخلہ انفرادی تصدیق پر محض اصرار کرتی ہے، ہوم ڈیپارٹمنٹ بھی جس کا کام ہی پرائیوٹ سیکورٹی ایجنسیوں کی مانٹرینگ کرنا ہے ، محض زبانی خرچ سے زیادہ کچھ نہیں کرتی۔اس کا واحد حل یہ ہی ہے کہ تھرڈ پارٹی مانیٹرنگ ، توسیعی اور گہری جانچ کے ذریعے کرانے سے اس عمل کو موثر بنایاجاسکتا ہے۔لیکن اس عمل کو کامیاب بنانے کے لئے خصوصی فنڈ بھی مختص کرنا لازمی ہوگا۔ایک محنتی سیکورٹی منیجر سے ہی ایک گارڈ کی وفاداری یا فرائض سے انحراف کاجواب پوچھاجا سکتا ہے ، کہ کیا جانچ کا توسیعی عمل قابل اعتباریت کا حامل ہے؟، اگر ایسا نہیں تو نگرانی کرنے والے اہلکار(گارڈز) کی نگرانی کون رکھے گا؟

No comments:

Post a Comment