ALL PAKISTAN PRIVATE SECURITY AGENCIES' EMPLOYEES ASSOCIATION

Friday, October 22, 2010

Terrorism and Security Problems in Pakistan BBCUrdu

پاکستان: دہشت گردی اور سکیورٹی کے مسائل

کوئٹہ فائل فوٹو

کوئٹہ میں ہونے والا ایک خود کش حملہ

نائن الیون کی اصطلاح سے معروف، امریکی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرنو نومبر کو ہونے والے حملے نے پوری دنیا کو عدم تحفظ کا شکار بنا دیا۔ جیسے جیسے یہ احساس بڑھتا رہا، ویسے ہی حفاظتی آلات اور ساز و سامان کی فروخت میں اضافہ ہوتا گیا۔

اس صورتحال کا پاکستان کے معاشرے کو بھی سامنا کرنا پڑا، یہ حملہ دو ہزار ایک میں ہوا اور ایک اندازے کے مطابق سنہ دو ہزار پانچ تک ملک بھر میں حفاظتی آلات فروخت کرنے والی کمپنیوں کی تعداد صرف پانچ تھی جو آج تقریباً ایک سو ساٹھ تک پہنچ چکی ہے۔

مگر پاکستان میں دہشت گردی صرف القاعدہ کا نام نہیں۔ یہاں دہشت گردی کی وجوہات سیاسی، لسانی اور فرقہ ورانہ بھی ہیں اور رہی سہی کسر جرائم پیشہ عناصر نے پوری کر دی۔ ایسی صورتحال میں حکومت پر انحصار کرنے والے عام شہریوں اور اداروں نے سکیورٹی کے کچھ انتظامات اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تو اسلحہ اور آلات حکومت یا کسی دوست ملک کی معاونت سے حاصل ہوتے ہیں مگر نجی اداروں اور عام شہریوں کو اسے خود خریدنا پڑتا ہے ۔

سرکاری طور پر تو اس بارے میں اعداد و شمار دستیاب نہیں مگر نجی کمپنیوں کے اندازوں کے مطابق ہر سال اربوں ڈالر کا سامان برآمد ہو رہا ہے۔

اس کاروبار میں کتنی تیزی آئی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈان میڈیا گروپ پچھلے دو سالوں سے اینٹی ٹیرر ازم کے موضوع پر کانفرنسیں منقد کر رہا ہے۔

گروپ کے غضنفر منگھی کہتے ہیں ’دو ہزار نو میں ہمیں لگا کہ مارکیٹ کو ایسی کانفرنس کی ضرورت ہے۔ انڈسٹری میں کس قسم کے ایکوپمنٹ یا آلات دستیاب ہے، کون سا ہارڈ وئر اور سوفٹ وئر دستیاب ہے، مین پاور اور کون سی ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے۔ لوگوں میں شعور نہیں تھا کہ اس انڈسٹری میں کیا اسکوپ ہے‘۔ غضنفر منگھی کا کہنا ہے کہ ان کی دوسری کانفرنس میں بین الاقوامی شرکت بھی کافی تھی اور یہ ایک اور وجہ ہے کہ دوسری کانفرنس زیادہ بڑی تھی۔

منگورہ فائل فوٹو

مینگورہ میں خود کش حملہ

غیر ملکی سفارتخانوں، غیر سرکاری تنظیموں، بینکوں سے تجارتی و کاروباری مراکز تک اور اہم سرکاری دفاتر سے ہوٹلوں اور تفریحی مقامات تک، فلیٹوں سے کسی پوش علاقے کے بنگلوز تک ہر جگہ نجی حفاظتی انتظامات نظر آتے ہیں۔

سکیورٹی واک تھرو گیٹس اور میٹل ڈیٹکٹرز تو اب عام ہیں۔ مگر کافی ادارے اب ایکسرے مشینز، ہنڈ ہلڈ سکینرز اور ایسے شیشے کا استعمال کر رہے ہیں جو گولیوں اور دھماکوں سے چکنا چور نہیں ہوتے ۔ اس کے علاوہ، اسلام آباد میں سال دو ہزار آٹھ میں میریٹ ہوٹل دھماکے کے بعد، کئی عمارتوں کے باہر بلاسٹ پروف دیواریں کھڑی کر دی گئی ہیں اور ایسے کتے بھی حفاظتی انتظامات میں شامل کیے گئے ہیں جو دھماکہ خیز مادہ سونگھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

مگر کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات مصنوعی ہیں، سیج ٹیک سنہ دو ہزار سے کراچی میں سکیورٹی کے الات کا کام کر رہی ہے۔ ان کے آپریشنز انچارج میجر محبوب کہتے ہیں کہ سکیورٹی ایکوپمنٹ کی ہر جگہ کمی ہے۔ ’دوسری بات، اگر ایکوپمنٹ ہے تو وہ سب سٹینڈرڈ ہے۔ تیسری بات، اگر اچھا ایکوپمنٹ ہو بھی تو بھی وہ کام نہیں کرتا۔ چوتھی، ایسے لوگ نہیں ہیں جو ایکوپمنٹ صحیح طریقے سے استعمال کر سکیں۔ ہمارے یہاں ٹرینگ یہ عالم ہے کہ میٹل ڈیٹیکٹرز سے گاڑیاں چیک کی جاتی ہیں‘۔

مگر کچھ لوگ سمجھتےہیں کہ ایسے اقدامات دہشت گردی کو روکنے کے لیے ناکافی ہیں لیکن تباہی اور نقصان کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ سی پی ایل سی کے سابق صدر جمیل یوسف بھی ان میں ہیں۔

’جب سٹیٹک سکیورٹی، فزیکل چیکنگ اچھی ہوئی، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ بریف کیس نہیں لے جا سکتے تھے۔ پھر خودکش بمبار پیدا ہوئے۔ جب سسٹم ہی بدل گیا آپ کو بھی بدلنا پڑے گا‘۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کو پری ایمپٹ کرنا لازمی ہے۔ ’برطانوی اور امریکی دہشت گردوں کو کیسے پری ایمپٹ کرتے ہیں؟ گفتگو کے ذریعے۔ اپ کو اب توجہ دینی ہے موبائل پر گفتگو سننے کی، موبائل ڈیٹا، چند علاقوں میں جا کر باتیں سننے کی، موبائل کے ذریعے دہشت گردوں کی نشاندہی کرنے کی‘۔

سوات، فائل فوٹو

سوات میں خود کش حملہ

سوال یہ ہے کہ دہشت گری کی روک تھام کیسے کی جائے؟ دنیا بھر میں، سکیورٹی ادارے ایک دوسرے سے خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں تاکہ جرائم پیشہ عناصر کو روکا جا سکے۔ مگر پاکستان میں دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کا کام پولیس اور حساس ایجنسیوں اکثر علحدہ علحدہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تعاون وقتی اور عارضی دونوں ہے اور جمیل یوسف کے مطابق، یہ اس نظام کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے بھی ایف بی آئی، سی آئی اے اور ہوم لینڈ سکیورٹی کو ایک پلیٹ فارم پر کیا کیونکہ انہیں علم تھا کہ اگر وہ ڈیٹا شئر نہیں کریں گے تو مجرم ان کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے۔

مگر پاکستان میں پولیس والوں کا کہنا ہے کہ ایجنسیوں کے پاس زیادہ جدید تکنیکی آلات ہیں جن تک پولیس کو رسائی حاصل نہیں، ایجنسیوں کو شبہ ہے کہ پولیس کے ہاتھ میں جانے سے ان آلات کا غلط استعمال ہو سکتا ہے۔ ’یہ چیزیں اپ کو شئر کرنی پڑیں گی۔ پولیس بھی ایک قانون نافذ کرنے والا ادارہ ہے۔ ان کو بھی حق ہے ایکوپمنٹ استعمال کرنے کا۔ اگر وہ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں تو انہیں سزا دیں۔ ڈیٹا بینک بنا کر سنیارٹی کے حساب سے ایکسس دیں اور اگر آپ ڈی آئی جی لیول کے افسران پر بھی بھروسہ نہیں کر سکتے تو پولیس کو فارغ کیوں نہیں کر دیتے؟‘

جیسے بھی ہو، یہ بات تو طے ہے کہ اعتماد کے اس فقدان سے نمٹے بغیر، دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔

No comments:

Post a Comment