ALL PAKISTAN PRIVATE SECURITY AGENCIES' EMPLOYEES ASSOCIATION

Saturday, June 12, 2010

شہر میں پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز کی تعداد سرکاری اہلکاروں سے بڑھ گئی

شہر میں پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز کی تعداد سرکاری اہلکاروں سے بڑھ گئی


کراچی (اعجاز احمد اسٹاف رپورٹر) کراچی کے شہری جہا ں اپنی جان و مال کی حفاظت اور املاک کے تحفظ کے لئے پولیس اور رینجرز پر انحصار کرتے ہیں وہیں و ہ اس کے لئے پرائیویٹ سیکورٹی ایجنسیز کی خدمات بھی معاوضے کے عوض حاصل کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ قریباً پونے 2/ کروڑ کی آبادی وا لے ملک کے اس سب سے بڑے شہر میں امن و امان قائم رکھنے اور جرائم پر قابو پانے کے لئے پولیس اور رینجرز کے صرف 35/ ہزار افسران اور جو ان خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز کی تعداد قریباً 45/ ہزار ہے تاہم قانوناً سیکورٹی گارڈز کا کردار صرف ان افراد، اداروں یا املاک کی حفاظت اور دفاع تک محدود ہے جنہوں نے معاو ضے کے عوض ان کی خد مات حاصل کی ہوتی ہیں وہ براہ راست جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں نہ انہیں گرفتار کرسکتے ہیں، لیکن عملاً اگر دیکھا جائے تو مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز خدمات حاصل کرنے والوں کو وہ تحفظ فراہم نہیں کرپاتے جن کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ اکثر شہری ان سے شاکی نظر آتے ہیں کیونکہ بیشتر وارداتیں ان کی مو جودگی میں ہوجاتی ہیں اور وہ مسلح ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرپاتے پھر یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ ڈکیتی کی کئی بڑی اور چھوٹی و ارداتوں میں وہی سیکورٹی گارڈز ملوث پائے گئے جن کی خدمات چوروں ا ور ڈا کوؤں سے بچنے کے لئے حاصل کی جاتی ہیں، جس کی واضح مثالیں آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع الائیڈ بینک کی برانچ میں ملکی تاریخ کی سب سے بڑی بینک ڈکیتی اور صائمہ ٹاور میں کسی منی چینجر کے ہاں ہونے والی سب سے بڑی ڈکیتی ہیں جن میں تقریباً 50/ کروڑ روپے سے زائد لوٹے گئے۔ ان دونوں وارداتوں میں بینک اور منی چینجر کی حفاظت پر مامور پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز ملوث پائے گئے جن کا تعلق ملک کے شمالی حصے میں سیکورٹی فورسز سے برسرپیکار دہشت گردوں کے بڑے نیٹ و رک سے جاملتا ہے۔ مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ اگر سیکورٹی گارڈز کرمنل مائنڈ نہیں تو وہ جسمانی طور پر اتنے فٹ نہیں ہوتے کہ جرا ئم پیشہ عناصر کے خلاف بھرپور دفاع کرسکیں کیونکہ سیکورٹی گارڈز کی بڑی تعداد ایکس سروس مین اور عمر رسیدہ افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ اکثر سیکورٹی گارڈز اسلحے کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا بھی نہیں جانتے، جس کے باعث آئے دن غلطی سے گولی چلنے کی وجہ سے وہ اپنے کسی ساتھی کو زخمی کردیتے ہیں یا خود زخمی ہوجاتے ہیں جبکہ کچھ سیکورٹی گارڈز تو اس طرح گولی چلنے سے اپنی جانیں بھی گنوا بیٹھے ہیں تاہم ملک کے آئین اور قانون کے مطابق پولیس، رینجرز اور پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز کی ذمہ داریوں اور اختیارات میں واضح فرق مو جود ہے۔ امن و امان قائم رکھنے اور جرا ئم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کرنے کی بنیادی ذمہ داری محکمہ پولیس کی ہے جسے اسی مناسبت سے وسیع اختیارات بھی حاصل ہیں۔ پولیس کوئی بھی جرم ہونے کی صورت میں جرم کا ارتکاب کرنے والے افرا د کو گرفتار کرسکتی ہے ان سے تفتیش کرسکتی ہے اور ملزمان کے جرائم کے حوالے سے چالان مکمل کرکے عدالتوں میں پیش کرسکتی ہے۔ اسی طرح شہر میں جرائم کے اڈوں کا خاتمہ اور کسی بھی قسم کے ہنگاموں اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات پر قابو پانا بھی پولیس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ پھر شہر میں ٹریفک مینجمنٹ کی ذمہ داری بھی پولیس ہی ہے۔ محکمہ پولیس میں براہ راست بھرتی سپاہی، اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) کے عہدوں پر ہوتی ہے جس کے لئے امیدوار کی کم از کم عمر 18/ سال، قد ساڑھے 5/ فٹ اور اسے طبی لحاظ سے مکمل فٹ ہو نا چاہئے۔ البتہ اے ایس پی کے عہدے پر پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرنے والوں کو ہی بھرتی کیا جاسکتا ہے جبکہ سپاہی کے طور پر بھرتی ہو نے والوں کے لئے تعلیمی معیار کم از کم میٹرک مقرر ہے۔ بھرتی کے بعد تربیت کا مرحلہ آتا ہے جس کے لئے کرا چی کے بلدیہ ٹا ؤن میں سعید آباد پولیس ٹریننگ سینٹر اور گڈاپ ٹاؤن رزاق آباد میں شہید بے نظیر بھٹو ایلیٹ فورس ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ قائم ہیں جہا ں پولیس کے افسران اور جوانوں کو قانون کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مکمل ذہنی، جسمانی اور ہر قسم کا اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دی جاتی ہے ان اداروں میں پولیس اہلکاروں کو مختلف قسم کے سہ ماہی، شش ماہی اور سالانہ کورسز بھی کروائے جاتے ہیں جنہیں پاس کرنے والوں کو محکمانہ ترقیاں ملتی ہیں۔ نیز بعض کورسز کی تکمیل اور تربیت کے لئے کرا چی پولیس کے اہلکاروں اور جوانوں کو اندرون سندھ شہداد پور پولیس ٹریننگ سینٹر بھی بھیجا جاتا ہے۔ کراچی پولیس اس وقت جدید ترین اسلحے سے لیس ہے جس کے سبب جرائم پیشہ عناصر سے نمٹنے میں اسے پہلے کی نسبت کسی قدر آسانی ہوگئی ہے۔ کراچی پولیس میں اس وقت 26/ ہزار 8/ سو 73/ افسران اور جوان خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ منظور شدہ اسامیوں کی کل تعداد 28/ ہزار 9/ سو 64/ ہے اس طرح 2/ ہزار 91/ اسامیاں خالی ہیں جنہیں پر کیا جانا باقی ہے۔ پاکستان رینجرز سندھ ایک پیراملٹری فورس ہے جس کا بنیادی کام بھارت سے ملنے و الی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے تاہم کراچی میں امن و امان کی انتہائی خراب صورتحال اور پولیس کی نفری نسبتاً کم ہو نے کے سبب 80ء کے عشرے کے اواخر میں پولیس کی معاونت کے لئے اسے شہر میں طلب کیا گیا ابتداء میں رینجرز کی تعیناتی جامعہ کرا چی اور بعض دیگر تعلیمی اداروں تک محدود تھی پھر اسے پاکستان اسٹیل میں تعینات کیا گیا اوکر اب یہ پورے شہر میں موجود ہے۔ اس وقت رینجرز ہیڈکوارٹرز اور رینجرز کے 3/ ونگز یعنی بھٹائی، سچل، عبداللہ شاہ غازی کے ساتھ ساتھ رینجرز انٹیلی جنس ونگ میں تقریباً 8/ ہزار افسران اور جوان اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جبکہ صوبہ سندھ میں ان کی مجموعی تعداد 24/ ہزار سے زائد ہے۔ رینجرز بنیادی طور پر شہر میں پولیس کی معا ونت کے لئے ہے جسے گرفتاریوں ، چھاپوں اور ملزمان سے تفتیش وغیرہ کے اختیارات حاصل نہیں مگر کچھ عرصہ قبل شہر میں بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ کے سبب اسے 1959ء کے رینجرز آرڈیننس کی ایک شق کے تحت عبوری طور پر جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری،چھاپوں اور ملزمان سے تفتیش کے خصوصی اختیارات بھی دیئے گئے ہیں جن میں ضرورت کے تحت توسیع کی جاسکتی ہے۔ رینجرز چونکہ ایک پیرا ملٹری فورس ہے اس لئے اس میں بھرتی، فٹنس اور تربیت کا معیار بھی پولیس کی نسبت زیادہ بہتر ہے۔ رینجرز میں سپاہی کی بھرتی کے لئے کم از کم عمر 18/ سال، قد 6/ فٹ،تعلیمی قابلیت میٹرک اور طبی لحاظ سے امیدوار سو فیصد فٹ ہونا چاہئے ان کی تربیت کے لئے رینجرز ٹریننگ اسکول قائم ہے جہاں انتہائی اعلیٰ پیمانے پر رینجرزا اہلکاروں کی ذہنی اور جسمانی تربیت کی جاتی ہے۔ رینجرز کا بنیادی کام چونکہ سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اس لئے انہیں انتہائی جدید اور ہر قسم کا اسلحہ استعمال کرنے کی تربیت دی جاتی ہے اور اسی مناسبت سے رینجرز فورس کو مسلح بھی کیا جاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment